ششی تھرور اور ہندو پاکستان کمنٹ

*ششی تھرور اور ہندو پاکستان کمنٹ*

شبیع الزماں

پچھلے دنوں ’’ہندوستانی جمہوریت اور سیکو لر ازم کو لاحق خطرات‘‘ پر تقریر کرتے ششی تھرور کے ہندو پاکستان والے بیان نے سیاسی ماحول گرم کر دیا ہے۔ تری اننت پورم میں تقریر کرتے ہوئے ششی تھرور نے کہا "اگر وہ (بی جے پی) لوک سبھا چناؤ جیت جاتے ہیں تو ہمارا جمہوری دستور باقی نہیں رہے گا وہ یہ دستور پھاڑ دینگے اور نیا دستور لکھ دینگے۔نئے دستور کی بنیاد  ہندوتوا ہوگی جس میں اقلیتوں کے برابری کے حقوق نکال دیے جائے گے اور یہ ملک ہندو پاکستان بن جائے گا  مہاتما گاندھی، نہرو،سردار پٹیل، مولانا آزاد اور ہمارے ہیروز اور مجاہدین آزادی یہی نہیں چاہتے تھے۔‘‘ ششی تھرور نے اس طرح کا  بیان کوئی پہلی مرتبہ نہیں دیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ اس قسم کا بیان دے چکے ہیں ۔ جے پور لٹریچر فیسٹول میں تقریر کرتے ششی تھرور نے کہا تھا

ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ ہندوستانی دستور میرے لیے مقدس کتاب ہے دوسری طرف وہ دین دیان اپدھیائے کو اپنا ہیرو قرار دیتے اور اپنے منسٹرس کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ وہ اپدھیائے کی تعلیمات اور تحریروں کا مطالعہ کرے۔وہی دین دیال جو ہندوستانی دستور کا صاف انکار کرتا ہے‘‘۔

اس طرح کا بیان صرف ششی تھرور نہیں بلکہ ملک بھر کے سوچنے سمجھنے اور حالات پر نظر رکھنے والے افراد  کی طرف سے مستقل آرہے ہیں۔البتہ بی جے پی نے تھرور کے بیان پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ بی جے پی نےا سے ہندو دھرم اور جمہوریت کی توہین قرار دیا اور تھرور سے معافی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

تھرور نے معافی کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہو کہا کہ وہ معافی اسی صورت میں مانگے گے جب بی جے پی یہ اعلان کرے کہ اس نے ساورکر،گولوالکر اور دین دیال اپادھیائے کے ہندو راشٹر کے پرو جیکٹ کو ختم کر دیا‘‘

پرٗائم منسٹر اپنی تقریروں میں آزادی،جمہوریت، مساوات کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف سنگھ اور بی جے پی کے ذریعے زمینی سطح پر ملک کے بھگوا کرن کی مستقل کوششیں جاری ہیں، جب وزیر اعظم اس قسم کے بیانات دیتے ہیں تو ہندوتوا کیڈر بخوبی اس بات کو سمجھتا ہے کہ یہ بیانات صرف ظاہری طور پر دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں اصل ایجنڈا تو وہی ہے جو سنگھ چاہتا ہے۔  لیکن وزیر اعظم کے اس طرح کے بیانات سے بی جے پی والے  عوام کی بڑی تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں یا کم از کم لوگوں کی جواب دہی سے تو بچ ہی جاتے ہیں لیکن تھرور کے اس موقف سے بی جے پی کے لیے اس دوہرے معیار پر قائم رہنا مشکل ہو گیاہے۔

کانگریس تھرور کے اس مضبوط موقف سے فائدہ اٹھا سکتی تھی۔ بی جے پی کے ہندوتوا کے بالمقابل ایک بیانیہ (narrative)کی تلاش میں کانگریس کے لیے یہ ایک اچھا موقع تھا کہ تھرور کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ۔ راہل گاندھی کے ہندوتوا پر سخت موقف کی وجہ سے گمان بھی یہی تھا  کہ وہ تھرور کا ساتھ دینگے لیکن راہل گاندھی کے بارے میں راج دیپ سر دیسائی نے درست ہی کہا تھا  He never missed an opportunity to miss an opportunity نے یہ موقع بھی ضائع کر دیا۔ کانگریس نے تھرور کے بیان سے خود کو الگ کر لیا۔

ششی تھرور کوئی عام سیاستدان نہیں ہے ۔ وہ اپنے زمانے کے ایک عبقری شخصیت ہے۔ well qualified  آدمی ہے۔ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ اس سے پہلے  اقوام متحدہ کی ڈپٹی جنرل سکریٹری تھے اور جنرل سکریٹری کے لیے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ یہ بیانات صرف سیاسی نوعیت کے بیانات نہیں ہے بلکہ بدلتے ہندوستان کی صحیح عکاسی کرتے ہیں ۔اس سے پہلے مودی کیبینٹ کے وزیر اننت کمار ہیگڑے کہہ چکے ہیں دستور بدلنا ہوگا ۔تری پورہ کے گورنرتتھا گتھا رائے بھی اسی قسم کا بیان دے چکے ہیں کہ  "1950میں جسے تسلیم کر لیا گیا تھا اب اسے بدلا جا سکتا ہے "
یہ وہی خدشات ہے جو ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو مستقل اپنی تقریروں میں دہراتے رہتے تھے ۔ آزاد ہندوستان میں ہندوتوا کے خلاف سب سے مضبوط آواز پنڈت نہرو ہی کی آواز تھی ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ "پاکستان بننے کے بعد مسلم فرقہ پرستی کا مسئلہ ختم ہوچکا ہے اب ہندوستان کو اصل خطرہ ہندو فرقہ پرستوں سے ہے۔ " جو بات آج ششی تھرور نے کہی وہ بات بہت پہلے پنڈت جواہر لال نہرو  گولوالکر کے متعلق کہہ چکے ہیں " کہ اس کا مقصد ہندوستان کو ہندو پاکستان بنانا ہے "

Comments

Popular posts from this blog

حرکت میں برکت

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن