دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
🌺 *صدائے دل ندائے وقت*🌺
*دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن*
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے (غالب)
*زندگی کی سحر کب شام میں بدل جائے کسی کو خبر نہیں،خلوت ، جلوت میں اور خوشی ، نمی میں کب تبدیل ہوجائے کون کہہ سکتا ہے؟وقت اور قسمت بدلتے دیر نہیں لگتی،کل کا گدا آج شاہ ہے،اور آج کا شہنشاہ در در کی ٹھوکریں بھی کھا سکتا ہے،ان سب نقصان کے درمیان سب سے بڑا نقصان یہ ہے؛ کہ انسان فرصت کے لمحات کھودے، زندگی کی پر فریب وادیوں میں اور نئے رنگ گلیاروں میں اپنے آپ کو گم کردے، صبح وشام اور پہر دوپہر کی فرصتوں کو یوں ہی گنوادے، اور پھر کسی ایک ہی رخ پر سرپٹ دوڑ کر زندگی بسر کرنے لگے،اس کی مرکزیت اور علمی دائرے محدود ہو جائیں، فکری نشو نما اور عملی دائرہ کار اور چند اشخاص تک سمٹ کر رہ جائیں،شہرت یا دولت اور خواہشات کی تکمیل ہی اس کی معراج قرار پاجائے، قرب وجوار کے معاملات سے آنکھیں بند کئے ہوئے؛ مستی و سرشاری کے دام الجھ کر رہ جائے۔*
عموما انسانی زندگی کی حقیقت اب بس اتنی ہی ہے؛ کہ دو وقت کی روٹی نصیب ہو جائے،یا نام نہاد شہرت حاصل کر کے معاشرہ و سو سائٹی میں خاص مقام پیدا کر لیا جائے، اپنے کاروبار اور متعلقات کی توسیع صرف اتنی ہوجائے؛ کہ عزت و سربلندی اس کے گھر کی لونڈی ہو،اسے ہر ایک سے اوپر ہونا اور دوسروں کو اپنے سے نیچے کرنے میں ہی مزہ آئے لگا ہے، دل کا قرار اور دماغی راحت کسی انسانیت نوازی اور محبت ومودت میں نہیں؛ بلکہ یہی دھن لگی رہتی یے کہ دغا وفریب اور مکارانہ حرکتوں کے ذریعہ کس کا دل ٹوٹے، کسے وہ خون کے آنسو رلائے یا کسے عرش سے فرش کی سیر کروائے ،دوسروں کی ٹانگ کھینچا اور بات بات پر ذلیل و خوار کرنے کی کوشش کرنا ہی مقصد حیات بن گیا ہے، سازشوں اور دجل کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے، یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب ایک ایسی بھوک بن چکی ہے، جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی، ایسوں کو کھا ، کھا کر تخمہ ہوجائے مگر شکم سیر ہونے کی نوبت آہی نہیں سکتی۔
*دراصل دنیاوی رنگ وبو کا مزہ خودی کے ساتھ ہی ہے، اپنے فرصت کے لمحوں کو جی بھر کر جینے اور بے فخر ہوکر رعنائیوں اور زیبائیوں سے لطف اندوزہونے ہی میں یے، یاد رکھئے! ہر آنے والا لمحہ جانے والا ہے،کسی کو کوئی پائیداری نہیں،وقت کی سوئی پر کسی کا قبضہ نہیں، کوئی نہیں جو ڈوبتے سورج کو روک دے،یا چڑھتے سورج پر حکم آرائی کرے، کون ہے جو بچپن کی بے فکری اور عنفوان شباب کا لا ابالی پن لوٹا سکے؟ کون ہے جو جوانی کا جوش و ولولہ میں پھر وہی روح دال سکے؟ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے؛ کہ اپنے فرصت کے لمحات کی قدر کی جائے،کہیں ایسا نہ ہو کہ اک عمر میں بس یہی زبان زد رہ جائے:*
دِل ڈُھونڈتا ہے پِھر وہی فُرصت کے رات دن
جاڑوں کی نرم دُھوپ اور آنگن میں لیٹ کر
آنکھوں پہ کِھینچ کر تیرے آنچل کے سائے کو
اوندھے پڑے رہیں، کبھی کروٹ لئے ہوئے
یا گرمیوں کی رات کو پُروائی جب چلے
بستر پہ لیٹے دیر تلک جاگتے رہیں
تاروں کو دیکھتے رہیں چَھت پر پڑے ہوئے
برفِیلے موسموں کی کسی سرد رات میں
جا کر اُسی پہاڑ کے پہلُو میں بیٹھ کر
وادی میں گُونجتی ہوئی خاموشیاں سُنیں
دِل ڈُھونڈتا ہے پِھر وہی فُرصت کے رات دن (گلزار)
✍ *محمد صابرحسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
8120412392
Comments
Post a Comment