اور پھر ہم رسوا ہوئے!-مہدی حسن عینی قاسمی

*اب ابناء مدارس اسلامیہ ہندیہ اور دیوبند اسلامک اکیڈمی کے ذمہ دار  مولانا مہدی حسن قاسمی صاحب نے بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ پر چبھتے سوالات قائم کیے۔ اور کل کے بدترین ڈرامے کے لیے اعجاز ارشد قاسمی کو قصوروار تسلیم کیا :*

*اور پھر ہم رسوا ہوئے!*
مہدی حسن عینی قاسمی

دو روز قبل میں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی میڈیا پالیسی کے متعلق ایک تحریر لکھی تھی
عاملہ کی میٹنگ سے قبل مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب نے دو تحریروں کے ذریعہ اس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی
اور کل بدنام زمانہ نیوز چینل زی.نیوز ہندوستان کے لائیو شو میں وہ سب کچھ ہوا جو مسلمانان ھند کی تاریخ کا بدنما داغ بن کر رہ جائے گا
ایڈووکیٹ فرحہ فیض کو کون نہیں جانتا باعزت مسلمان اس کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے ٹیوی ڈیبیٹ میں اس کے ساتھ شریک ہونا تو بہت دور کی بات ہے،
*زی.کے سبھی دھڑوں کا بائیکاٹ ملک کے لبرل،کمیونسٹ اور الحادی تک کرتے ہیں اپروانند،منوج جھا، جگنیش،عمرخالد، کنہیا اور شہلا جیسے لوگ اس چینل کو منہ تک لگانا پسند نہیں کرتے، جبکہ ہماری صف سے ایک عالم دین قوم مسلم کی ترجمانی کرنے کے لئے ملک کے سب سے بڑے وفاق کا ٹیگ لگا کر کئی عدد تنظیموں کا رکن بن کر اسی چینل پر پہونچ جاتے ہیں، مذھب بیزار چند خواتین کے ساتھ بحث کی شروعات ہوتی ہے اور دوسرے منٹ سے ہی چیخ پکار،تو تڑاخ شروع ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ تقریباً آدھے گھنٹے تک چلتا ہے اینکر اس میں مرچ مسالہ ڈال دیتی ہے اور پھر خاتون وکیل تھپڑ مارتی ہے جواب میں مفتی صاحب یکے بعد دیگرے تین زوردار تھپڑ رسید کرتے ہیں. پولیس پہلے سے موجود رہ کر اسی لمحے کا انتظار کرتی ہے جوں ہی داڑھی ٹوپی والے مفتی صاحب دفاعی حملہ کرتے ہیں پولیس آن دی اسپاٹ ان کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے*
اور پھر ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر حمایت و مخالفت کا بازار گرم ہوجاتا ہے کوئی مفتی صاحب کے عمل کو درست ٹھہراتا ہے تو کوئی ان کو مجرم گردانتا ہے
*لیکن سوال یہ ہے کہ اس پورے قضیہ کا ذمہ دار کون ہے؟*
اور اس سے کس کی ساکھ پر بٹا لگا؟

آج سے دیڑھ سال قبل اس بدنام زمانہ چینل کے پروگرام فتح کا فتوی شو کے خلاف ہم ہائی کورٹ دہلی میں کیس لڑ رہے تھے سوشل میڈیا پر بھی اس کے خلاف مہم چھڑی ہوئی تھی تبھی زی.نیوز کے دفتر سے ایک ذمہ دار نے ہم سے رابطہ کیا اور کہنے لگے کہ آپ اس ہفتے کے شو میں آجائیں اور طارق فتح کے ساتھ پروگرام  رکارڈ کروالیں میں نے چھوٹتے ہی مذاقیہ لہجے میں پوچھا کہ مجھے کیا ملے گا تو انہوں نے بتایا کہ دیوبند سے نوئیڈا تک لگزری گاڑی کا کرایہ اور الگ سے مناسب پیمینٹ کیا جائے گا
میں نے کہا کیا میری کچھ شرطیں مانی جائینگی؟ وہ کہنے لگے بتائیں میں نے کہا پہلی بات تو یہ ہے کہ میں پروگرام رکارڈ نہیں کراسکتا لائیو ڈیبیٹ میں حصہ لے سکتا ہوں،
دوسری بات یہ ہے کہ اس شو میں کوئی خاتون نا ہو سبھی پینلسٹ مرد ہوں اور ڈیبیٹ اوپن ہو عالمی اصول کے مطابق ہو. میں ابھی آگے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ کہنے لگے سر یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی
اس طرح تھوڑی کوئی ٹیوی شو ہوسکتا ہے
میں نے کہا بھئی میں نے اپنی بات کہہ دی آپ مانتے ہوں تو اپنے نمائندے کو بھیج دیں ورنہ تو سلام
اس واقعہ کا مقصد یہ ہے کہ جن نیوز چینلوں نے پہلے سے ہی اپنی شبیہ "اینٹی مسلم اینٹی مولوی اینٹی اسلام" بنا رکھی ہے وہاں جاکر تین طلاق جیسے حساس مسئلے پر بحث کرنا اور پھر آپے سے باہر ہوکر سازش کا شکار ہوجانا کہاں کی عقلمندی ہے

دوسری بات یہ ھیکہ دارالعلوم دیوبند کی اپیل کے بعد خود بورڈ بھی ایڈوائزری جاری کرچکا تھا کہ بورڈ سے منسلک لوگ ٹیوی ڈیبیٹ میں ناجائیں اگر جائیں تو ذاتی طور پر، بورڈ کے ترجمان یا رکن کی حیثیت سے نہیں
اور بورڈ نے مولانا سجاد نعمانی و مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو باضابطہ ترجمان منتخب کیاتھا لیکن اس کے باوجود *مفتی اعجاز ارشد اور دوسرے کئی صاحبان  جب بھی کسی ڈیبیٹ میں شریک ہوئے تو ان کا تعارف بورڈ کے رکن کی حیثیت سے ہی کرایا گیا، اس پر بورڈ نے ان حضرات کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی؟جبکہ اگر بورڈ پہلے سے سخت قدم اٹھاتا تو آج ملت کو اس رسوائی کا سامنا نا کرنا پڑتا!*

*کل سے نیشنل میڈیا میں جو گھمسان مچا ہے اس کی ذمہ داری بہت حد تک بورڈ پر بھی عائد ہوتی ہے ہم فرحہ فیض یا ندا خان کو مجرم تو مان سکتے ہیں لیکن ان سے شکوہ نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ تو مہرے ہیں!*

مفتی اعجاز ارشد کا جوابی رد عمل ڈیبیٹ کے اصولوں کی دھجیاں اڑانے والا تھا لیکن سیلف ڈیفینس کے لئے تھا  گرفتاری دونوں کی ہونی چاہئے تھی
لیکن چونکہ سب کچھ پہلے سے پری پلان تھا
اس لئے اب کف افسوس ملنے سے کیا فائدہ

بورڈ نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اپنا کام کرے گی
لیکن اگر کچھ کرنا ہی ہے تو یہی کہوں گا مطلق بائیکاٹ پالیسی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اگر خود کو ملک کے مسلمانوں کا سب سے بڑا وفاق گردانتا ہے تو ضروری ہے کہ اس کے ذمہ داران ایک مرتبہ پھر سے سر جوڑ کر بیٹھیں
میڈیا میں ترجمانی کے لئے ٹرینڈ کھیپ تیار کریں اور غیر تربیت یافتہ مسلم ڈیبیٹرس کا عوامی بائیکاٹ کرائیں
ورنہ یاد رکھیں وہ دن دور نہیں کہ ڈیبیٹ کے بجائے ذمہ داروں کے پریس کانفرنس میں اس طرح کا کوئی حادثہ پلانٹ کیا جائے اور
پوری ملت کو خون کے آنسو رونا پڑے.

Comments

Popular posts from this blog

حرکت میں برکت

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن