ہاں! میں محمد علی جناح ہوں۔۔۔!
ہاں! میں محمد علی جناح ہوں۔۔۔!
نازش ہما قاسمی
ہاں میں محمد علی جناح ہوں، جی وہی محمد علی جناح جو پاکستانیوں کے لیے قائد اعظم اور ان دنوں ہندوستان میں بھگوا پارٹیوں کے لیے فائد اعظم ہوں۔ میری پیدائش ۲۵؍دسمبر ۱۸۷۶ کو پونجا جناح کے یہاں متحدہ ہندوستان کے کراچی میں ہوئی۔میں خوجہ اسماعیلی فرقہ سے تھا؛ لیکن بعد میں مَیں نے بارہ امامی مسلک اختیار کرلیاتھا، میری بہن کا نام فاطمہ جناح ہے ، میری بیوی کا نام مریم جنا ح ہے جو کہ پارسی تھی اور میری بیٹی کا نام دینا واڈیا ہے جو ابھی کچھ دنوں قبل ہی فوت ہوئی ہے۔ میری وفات ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۸ کو پاکستان میں ہوئی، میری نماز جنازہ میری وصیت کے مطابق وقت کے بڑے عالم دین علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم ممبئی کے ایک ہائی اسکول سے حاصل کی ۔ میں نے بیس سال کی عمر سے ہی ممبئی میں وکالت شروع کردی تھی اور میں اس وقت شہر کا واحد مسلم وکیل تھا۔ ہاں میں ایک کامیاب وکیل تھا جس نے ا پنی وکالت سے بال گنگا دھر تلک کے خلاف غداری کے مقدمے میں ان کا کامیاب دفاع کیا۔ہاں میں وہی جناح ہوں جسے سروجنی نائیڈو نے ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا تھا۔ہاں میں وہی جناح ہوں جس کے انتقال پر ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ ہاں میں وہی جناح ہوں جسے پاکستانی قوم فخر سے بابائے قوم کہتی ہے۔ میں نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات1904میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کرکے کی۔ میں مسلم لیگ کا سخت مخالف تھا؛ لیکن کانگریس کی تحریک خلافت سے دلبرداشتہ ہوکر مسلم لیگ میں مجبوراً شمولیت اختیار کی اور اسے پروان چڑھایا۔ برصغیر کی اکثریت مجھے ہندوستان کو تقسیم کرنے والا کہتی ہے؛ لیکن حقائق پر نظر ڈالنے والے اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ تقسیم کا ذمہ دار کون کون ہے؟ صرف میں ہی نہیں تقسیم ہند کے ذمہ داروں میں بہت سارے لوگ شامل ہیں. دو قومی نظریہ میرا نہیں ہندومہاسبھا اور ساورکر کا تھا،ملک کی تقسیم کی ذمہ داری کانگریس پر بھی عائد ہوتی ہے... خیر! ملک تقسیم ہونا تھا، ہوگیا ، مسلمانوں کو آزمائش سے گزرنا تھا، لاشوں کی ڈھیر لگاکر میرے دلفریب نعروں کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان حاصل کرنا تھا. کرلیا گیا ۔ میری حمایت میں صرف صوفیا کی جماعت تھی متحدہ ہندوستان کے لیے اوالعزم علماء اور دانشوران کی جماعت میدان میں تھی جنہیں مسلم لیگیوں نے بے عزت کیا، ان کی ٹوپیاں اتاریں، ان کی داڑھیاں نوچیں، ان کے کپڑے تار تار کیے؛ لیکن وہ اولوالعزم تھے، بہادر تھے، ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی اور انہوں نے اپنے پرکھوں کی زمین پر ہی رہنا پسند کیا جو کہ ایک بہترین فیصلہ تھا۔
ہاں میں وہی محمد علی جناح ہوں جسے ان دنوں ہندوستان میں قبر سے نکال کر لایا گیا ہے ۔ بی جے پی نے ۲۰۱۴ کا انتخاب انا کے بھروسے جیتا تھا اور ۲۰۱۹ کا انتخاب جناح (میرے) کے سہارے جیتنا چاہتی ہے؛ لیکن جس طرح سے علی گڑھ والوں نے تحریک چلا رکھی ہے اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ انہیں منہ کی کھانی پڑے گی جس طرح مجھے کھانی پڑی تھی جب وہ مجھے قائد اعظم نہیں تسلیم کیے تو پھر یہ کس کھیت کے بیگن ہیں کہ ان کے فائد اعظم کے لیے فرقہ پرستوں سے سمجھوتہ کرلیں۔ علی گڑھ میں میری تصویر طلبا یونین کی روایت کے مطابق آٹھ دہائی سے آویزاں ہے؛ لیکن اس پر کبھی کوئی ہنگامہ کوئی واویلا نہیں ہوا، اب جبکہ ۲۰۱۹ کا الیکشن سر پر ہے، میرے نام جناح میں سے الف اور ح حذف کرکے جِن نکال کر اس پر ہنگامہ کیاجارہا ہے۔ علی گڑھ کے طلبا سے پوچھا جارہا ہے کہ وہاں کیوں یہ تصویر لٹکی ہوئی ہے؟ تقسیم ملک کے ذمہ دار کی تصویر کیوں لٹکائی گئی ہے۔ رویش کمار نے تو بھکتوں کی نانی یاد دلادی ہے کہ پورے تاریخی حقائق سامنے لاکر رکھ دیئے ہیں؛ لیکن انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، ان کا کام ابھی میرے سہارے ہے یعنی میں مرنے کے بعد بھی بھگوائیوں کے کام آرہا ہوں۔ خیر علی گڑھ والے سمجھنے والے نہیں ہیں، وہ اپنی دُھن اور اپنے عزائم کے پکے ہیں وہ ہرحال میں کامیاب ہوں گے؛ کیونکہ انہیں فرقہ پرستوں کو زیر کرنا ہے۔ آج ان کی حمایت میں پورے ملک سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ لوگ بھگوا آتنکیوں سے سوال کررہے ہیں کہ علی گڑھ میں جناح کی تصویر سے پریشانی ہے؛ لیکن چوکیدار جناح کے بنائے ہوئے ملک میں بلا اطلاع جاکر بریانی کھاکر آجائے، اس سے کوئی پریشانی نہیں۔ رتھ یاترا کا خونی داغ دینے والا اڈوانی میری تصویر کے ساتھ خوشگوار موڈ میں نظر آجائے اس سے کوئی پریشانی نہیں۔ میرے ملک (پاکستان) میں دہشت گردوں کے روح رواں سے ملنے والے ہندوستانی صحافی سے کوئی پریشانی نہیں۔ ویسے بھی انہیں کیوں پریشانی ہوگی؟... یہ تو فخر سے کہتے ہیں کہ ہم گوڈسے کی اولاد ہیں اور گوڈسے کی نسل کو پروان چڑھانی ہے جس نے گاندھی جی کا قتل کیا ہے۔ میں ہندوستانیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم نے ہماری بات نہیں مانی تھی اسی طرح ان فرقہ پرستوں کی بات نہ مان کر ملک کو بچالو، یہ گوڈسے کی اولاد، گاندھی کے قاتل کے نطفے، انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے تم سے خوفزدہ ہیں، انہیں تمہاری تاریخ کا علم ہے، ا نہیں تمہاری یونیورسٹیوں سے اس لیے پریشانی ہے کہ وہاں تم تعلیم حاصل کرکے اونچے اونچے مناصب پر براجمان ہورہے ہو، جو بھگوا دھاریوں کو ہضم نہیں ہورہا ہے، انہیں تمہارے مدارس سے اس لیے پریشانی ہے کہ وہاں آپسی بھائی چارے کی تعلیم دی جاتی ہے، وطن سے محبت سکھائی جاتی ہے وہ تمہاری اس تعلیم کو ختم کرناچاہتے ہیں؛ تاکہ تم جاہل رہ کر ان کے ہاتھوں قتل کئے جاؤ، اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کے قابل نہ رہو ، ظلم کے خلاف اٹھنے کی تم میں طاقت نہ رہے؛ اس لیے علی گڑھ والوں میری یہ خواہش ہے کہ تم اپنے مطالبات پر اٹل رہو، اگر ہٹانی ہی پڑے میری تصویر تو جس طرح طلبا یونین کے سکریٹری محمد فہد نے کہا کہ حکومت لکھ کر دے تو ہم ہٹالیں گے۔ ہم ہر ایرے غیرے نتھو خیر کے کہنے پر کیوں ہٹائیں؟ جس طرح ایک ایم ایل اے نے کہاکہ پارلیمنٹ سے ان بھگوا دھاریوں کی تصاویر ہٹائی جائیں جو انگریزوں کی مخبری کیا کرتے تھے تو ہم علی گڑھ سے ہٹالیں گے یہ عمدہ تجاویز ہیں ۔ تم اڑے رہنا، تمہارے عزائم سے وہ پاش پاش ہوجائیں گے، مجھے یقین ہے؛ کیوں کہ میں نے تم ہندوستانیوں کو آزمایا ہے تم نے مجھے بھی دھتکار دیا تھا کہ ہم ہندوستان میں خوش ہیں اور یہیں خوش رہ سکتے ہیں تم نے آزادی کے بعد سے یہ ثابت کردیا کہ واقعی تم خوش ہو ۔ میں موجودہ پاکستان اور موجودہ ہندوستان کا موازنہ کرتا ہوں تو دونوں میں بہت فرق پاتا ہوں، واقعی ہندوستان کا مسلمان پاکستانی مسلمانوں سے ہزار گنا ترقی یافتہ ہے، ہزار گنا بہتر ہے۔ جو ظلم کے خلاف اُٹھ جاتا ہے، جو گنگا جمنی تہذیب کو اب بھی بچائے ہوا ہے۔ کاش میں پوری شدت سے مسلم لیگ کے بینر تلے پاکستان کیلیے آواز نہیں اٹھاتا تو شاید آج ہم متحدہ ہندوستان میں رہ رہے ہوتے نہ پھر میری تصویر پر ہنگامہ ہوتا نا ہی بھگوائیوں کو میرے سہارے کی ضرورت پیش آتی...!
۔۔۔منکووووووول۔۔۔
ہاں میں وہی محمد علی جناح ہوں جسے ان دنوں ہندوستان میں قبر سے نکال کر لایا گیا ہے ۔ بی جے پی نے ۲۰۱۴ کا انتخاب انا کے بھروسے جیتا تھا اور ۲۰۱۹ کا انتخاب جناح (میرے) کے سہارے جیتنا چاہتی ہے؛ لیکن جس طرح سے علی گڑھ والوں نے تحریک چلا رکھی ہے اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ انہیں منہ کی کھانی پڑے گی جس طرح مجھے کھانی پڑی تھی جب وہ مجھے قائد اعظم نہیں تسلیم کیے تو پھر یہ کس کھیت کے بیگن ہیں کہ ان کے فائد اعظم کے لیے فرقہ پرستوں سے سمجھوتہ کرلیں۔ علی گڑھ میں میری تصویر طلبا یونین کی روایت کے مطابق آٹھ دہائی سے آویزاں ہے؛ لیکن اس پر کبھی کوئی ہنگامہ کوئی واویلا نہیں ہوا، اب جبکہ ۲۰۱۹ کا الیکشن سر پر ہے، میرے نام جناح میں سے الف اور ح حذف کرکے جِن نکال کر اس پر ہنگامہ کیاجارہا ہے۔ علی گڑھ کے طلبا سے پوچھا جارہا ہے کہ وہاں کیوں یہ تصویر لٹکی ہوئی ہے؟ تقسیم ملک کے ذمہ دار کی تصویر کیوں لٹکائی گئی ہے۔ رویش کمار نے تو بھکتوں کی نانی یاد دلادی ہے کہ پورے تاریخی حقائق سامنے لاکر رکھ دیئے ہیں؛ لیکن انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، ان کا کام ابھی میرے سہارے ہے یعنی میں مرنے کے بعد بھی بھگوائیوں کے کام آرہا ہوں۔ خیر علی گڑھ والے سمجھنے والے نہیں ہیں، وہ اپنی دُھن اور اپنے عزائم کے پکے ہیں وہ ہرحال میں کامیاب ہوں گے؛ کیونکہ انہیں فرقہ پرستوں کو زیر کرنا ہے۔ آج ان کی حمایت میں پورے ملک سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ لوگ بھگوا آتنکیوں سے سوال کررہے ہیں کہ علی گڑھ میں جناح کی تصویر سے پریشانی ہے؛ لیکن چوکیدار جناح کے بنائے ہوئے ملک میں بلا اطلاع جاکر بریانی کھاکر آجائے، اس سے کوئی پریشانی نہیں۔ رتھ یاترا کا خونی داغ دینے والا اڈوانی میری تصویر کے ساتھ خوشگوار موڈ میں نظر آجائے اس سے کوئی پریشانی نہیں۔ میرے ملک (پاکستان) میں دہشت گردوں کے روح رواں سے ملنے والے ہندوستانی صحافی سے کوئی پریشانی نہیں۔ ویسے بھی انہیں کیوں پریشانی ہوگی؟... یہ تو فخر سے کہتے ہیں کہ ہم گوڈسے کی اولاد ہیں اور گوڈسے کی نسل کو پروان چڑھانی ہے جس نے گاندھی جی کا قتل کیا ہے۔ میں ہندوستانیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم نے ہماری بات نہیں مانی تھی اسی طرح ان فرقہ پرستوں کی بات نہ مان کر ملک کو بچالو، یہ گوڈسے کی اولاد، گاندھی کے قاتل کے نطفے، انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے تم سے خوفزدہ ہیں، انہیں تمہاری تاریخ کا علم ہے، ا نہیں تمہاری یونیورسٹیوں سے اس لیے پریشانی ہے کہ وہاں تم تعلیم حاصل کرکے اونچے اونچے مناصب پر براجمان ہورہے ہو، جو بھگوا دھاریوں کو ہضم نہیں ہورہا ہے، انہیں تمہارے مدارس سے اس لیے پریشانی ہے کہ وہاں آپسی بھائی چارے کی تعلیم دی جاتی ہے، وطن سے محبت سکھائی جاتی ہے وہ تمہاری اس تعلیم کو ختم کرناچاہتے ہیں؛ تاکہ تم جاہل رہ کر ان کے ہاتھوں قتل کئے جاؤ، اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کے قابل نہ رہو ، ظلم کے خلاف اٹھنے کی تم میں طاقت نہ رہے؛ اس لیے علی گڑھ والوں میری یہ خواہش ہے کہ تم اپنے مطالبات پر اٹل رہو، اگر ہٹانی ہی پڑے میری تصویر تو جس طرح طلبا یونین کے سکریٹری محمد فہد نے کہا کہ حکومت لکھ کر دے تو ہم ہٹالیں گے۔ ہم ہر ایرے غیرے نتھو خیر کے کہنے پر کیوں ہٹائیں؟ جس طرح ایک ایم ایل اے نے کہاکہ پارلیمنٹ سے ان بھگوا دھاریوں کی تصاویر ہٹائی جائیں جو انگریزوں کی مخبری کیا کرتے تھے تو ہم علی گڑھ سے ہٹالیں گے یہ عمدہ تجاویز ہیں ۔ تم اڑے رہنا، تمہارے عزائم سے وہ پاش پاش ہوجائیں گے، مجھے یقین ہے؛ کیوں کہ میں نے تم ہندوستانیوں کو آزمایا ہے تم نے مجھے بھی دھتکار دیا تھا کہ ہم ہندوستان میں خوش ہیں اور یہیں خوش رہ سکتے ہیں تم نے آزادی کے بعد سے یہ ثابت کردیا کہ واقعی تم خوش ہو ۔ میں موجودہ پاکستان اور موجودہ ہندوستان کا موازنہ کرتا ہوں تو دونوں میں بہت فرق پاتا ہوں، واقعی ہندوستان کا مسلمان پاکستانی مسلمانوں سے ہزار گنا ترقی یافتہ ہے، ہزار گنا بہتر ہے۔ جو ظلم کے خلاف اُٹھ جاتا ہے، جو گنگا جمنی تہذیب کو اب بھی بچائے ہوا ہے۔ کاش میں پوری شدت سے مسلم لیگ کے بینر تلے پاکستان کیلیے آواز نہیں اٹھاتا تو شاید آج ہم متحدہ ہندوستان میں رہ رہے ہوتے نہ پھر میری تصویر پر ہنگامہ ہوتا نا ہی بھگوائیوں کو میرے سہارے کی ضرورت پیش آتی...!
۔۔۔منکووووووول۔۔۔
Comments
Post a Comment