رمضان المبارک٬نیکیوں کا موسم بہار
رمضان المبارک٬نیکیوں کا موسم بہار
✍تحریر:شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم
(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)
خزاں کے موسم میں درختوں کے پتے جھڑ جاتے ہیں ، شجرہائے سایہ دار کا سایہ گھٹ جاتا ہے ، اور ہرے بھرے اور لہلہاتے ہوئے درخت پھل پھول اور پتوں کے بغیر ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے تن بے لباس، پھر موسم بہار کی آمد آمد ہوتی ہے اور سوکھے درخت لہلہااٹھتے ہیں، پودوں میں نئی جان اور درختوں میں نئی آن بان پیدا ہوجاتی ہے ، باد صبا کے خنک جھونکے درختوں کو مست کردیتے ہیں اور پھل پھول کی فرحت انگیز خوشبو پرندوں اور قمریوں کا دل موہ لیتی ہے ، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں بکھر جاتی ہیں اور افسردہ دل بھی موسم کی شادابی سے مسرور و مخمور ہوجاتے ہیں، دلوں کو مسرور کردینے اور سرسبزی و شادابی بکھیرنے والا موسم ،موسم بہار ہے ۔
اسی طرح گناہ کی آلودگی کو مٹا کرنیکی اور تقوی کے پھل پھول کھلانے اور دلوں کی مرجھائی ہوئی کھیتی کو سر سبزو شاداب کردینے والا روحانی موسم ماہ رمضان ہے ، یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں گناہ کی ظلمتیں مٹائی جاتی ہیں اور خیر و عافیت کا نور بکھیرا جاتا ہے ، طاعت کے درختوں پر اجر اور نیکی کے پھل اگتے ہیں اور خیر کے پودوں پر برکت و روحانیت کے گلاب کھلتے ہیں ، نیکیوں کا یہی وہ موسم بہار ہے جس میں شر کی آندھیوں کا راستہ رک جاتا ہے( یا باغی الشر ادبر)اور خیر کا مینھ جھوم کر ٹوٹ کر برستا ہے(یا باغی الخیر اقبل)ظرف والے اس موسم بہار میں خوب خوب حظ اٹھاتے ہیں جب رات کی تاریکیوں میں قرب الٰہی کی باد نسیم چلتی ہے تو وہ نہاں خانۂ قلب میں اسے ذخیرہ کرتے ہیں۔جب بوقت افطار اجابت دعا کی پرکیف ہوا چلتی ہے تو وہ بے خود ہوکر پاک پروردگار سے مانگتے ہیں ، مانگتے چلے جاتے ہیں ، روکر، گڑ گڑاکر،اس احساس کے ساتھ
ع
در کریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا
ماہ رمضان ہمیں کچھ دینے کے لئے آتا ہے ، ہم سے کچھ لینے کے لئے نہیں ، محروم ہیں وہ جو رمضان میں بھی کچھ پا نہ سکیں ، خالی ہاتھ اور تہی دامن رہ جائیں ، خوش بختی ان کے لئے ہے جو رمضان میں روزہ رکھ کر صبر وتقویٰ کی نعمت پائیں ، یہ وہ دولت ہے جو کامیابی و کامرانی کا بنیادی سبب ہے ،( وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ)یہی وہ سرمایہ ہے جو دشمنوں کی سازشوں کو ناکامیاب اور ان کے بلند و بالا حوصلوں کو پست کردیتا ہے (وَاِنْ تَصْبِرُوْاوَتَتَّقُوْا لَایَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا) یہ دولت جس کے ہاتھ آجائے وہ کامیاب ، سرخرواور بامراد!
تراویح قرب الٰہی کا سبب ہے ، بندہ سجدوں کی کثرت کے ذریعہ قرب اور نزدیکی کی نعمت سے سرشار ہوتا ہے ، (وَاسْجُد ْوَقْتَرِبْ) اور قرب بھی کیسا کہ اپنے جسم کے سب سے بلند و بالا حصے کو محبوب کے قدموں پر ڈال دیتا ہے ۔(یَسْجُدُ بَیْنَ قَدَمَیِ الرَّحْمٰن) تراویح میں جتنا حضور قلب ہوگا، نزدیکی کے اتنے ہی مراتب حاصل ہوتے جائیں گے ۔اور جب قرب کے مرحلے گزرنے لگیں تو بے اختیار دست دعا بارگاہ خداوندی میں دراز ہوجاتے ہیں، اور ہاتف غیبی پکار اٹھتا ہے’’اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَان ِ‘‘( مانگنے والے کی مانگ میں پوری کرتا ہوں جب کہ وہ مانگے۔) اس لئے رمضان المبارک میں دعا کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہئے ، بطور خاص افطار سے پہلے اور بوقت سحر اور وہ بھی اس طور پر کہ
ع
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
رب کریم ہمیں رمضان المبارک کی قدر نصیب فرمائے-(آمین ثم آمین)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment